Bottle Ka Jin
بوتل کا جن
پپو میاں ساحل سمندر پر کھیل رہے تھے۔ان کے بھائی، بہن، امی، ابو،بھی یہاں آئے ہوئے تھے۔سب اپنی اپنی تفریح میں مگن تھے پپو میاں پتھر اٹھا اٹھا کر انھیں بولنگ کے انداز میں پھینک رہے تھے۔ کھیلتے کھیلتے وہ اپنے گھر والوں سے خاصے دور چلے گئے۔نہ ان کواس بات کا دھیان رہا، نہ ان کی بڑوں کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ ان سے بہت دور تک چلے گئے ہیں۔
![]() |
| Bottle Ka Jin |
اچانک پانی کا ایک بہت بڑا ریلا آیا اور خشک ساحلی حصوں کو بھگوتا ہوا پپو میاں کے قریب تک پہنچ گیا۔ ریلا جس تیزی سے آیا تھا،اسی تیزی کے واپس چلا گیا۔پانی تو واپس چلا گیا،مگر اس کے ساتھ بہہ کر آنے والی بہت سی چیزیں ساحل پر ہی رہ گئیں۔ان میں زیادہ تر رنگ برنگی سپیاں تھیں۔ کچھ ڈبے،کچھ بوتلیں تھیں۔ جنہیں ساحل پر تفریح کے لیے آنے والے اکثر لوگ استعمال کے بعد سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔
اچانک پپو میاں کی نظر ایک ایسی بوتل پر پڑی جو دیگر بوتلوں سے مختلف تھی۔صاف لگ رہا تھا کہ یہ ان بوتلوں میں سے نہیں ہے۔ جن کا مشروب استعمال کر کے انہیں سمندرکے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے لپک کر اس بوتل کو اٹھا لیا اور ادھر ادھر سے اسے گھما پھرا کر دیکھنے لگا، غور سے دیکھنے پر انہیں اندازہ ہوا کہ اس بوتل پر ایک کارک سا لگا ہوا ہے۔ اسی وقت انہیں ایک آواز سنائی دی۔بہت دھیمی جیسے کہیں بہت دور سے آ رہی ہو۔ "خبردار! اس بوتل کا منہ نہ کھولنا۔" انہوں نے اپنے ارد گرد دیکھا اور پھر بہت دور تک نگاہ دوڑائی کہ یہ کون بول رہا ہے،مگر انہیں کوئی نظرنہیں آیا،جبکہ آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی: "خبردار! بوتل کا منہ نہ کھولنا۔"
عجیب تماشا ہے۔ کوئی موجود نہیں،مگر آواز آ رہی ہے۔انہوں نے آہستہ سے کہا۔
پھر اچانک بے خیالی میں بوتل کے منہ پر لگا کارک کھل گیا۔جس کا احساس انہیں اس وقت ہواجب بو تل کےاندر سے دھواں نکلنے لگا۔انہوں نے گھبرا کر بوتل ہاتھ سے چھوڑ دی۔
"او،ہو اس کے اندر تو کوئی گیس بھرئی ہوئی تھی۔" ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا:
"اسی لیے کوئی منع کررہاتھا کہ بوتل کا منہ نہ کھولنا۔"
نہیں میرے آقا! یہ گیس نہیں،یہ دھواں ہے۔میرے وجود کا روپ ہے۔
پپو میاں نے گھبرا کردھوئیں کی طرف دیکھا، جوبوتل سے نکل کر آسمان کی طرف دور تک چلا گیا،پھر دیکھتے ہی دیکھتے دھواںغائب ہو گیا تھا،اور اس جگہ ایک جن کھڑا نظر آیا۔
تت۔۔۔۔۔۔۔ تم کون ہو؟پپو میاں نے ڈرتے ہوا پوچھا؛
"میرے آقا میں اس بوتل کا جن ہوں۔"
"جن۔۔۔۔۔۔۔ جن! اچھا اچھا! میں نے تمہیں شاید پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ہاں،ہاں یاد آیا۔میں نے تمہاری فلم دیکھی تھی،جب تم شہزادی کا پورا محل ایک ہاتھ پر اٹھا کر ہوا میں اڑے جارہے تھے اور پھر تم نے الہٰ دین کے محل کے پاس ہی شہزادی کا محل رکھ دیا تھا۔اب پپو میاں کا خوف کافی حد تک دور ہو چکا تھا۔
" میرے آقا! وہ جن میں نہیں تھا۔وہ الہٰ دین کے جادوئی چراغ کا جن تھا۔میں تو بوتل کا جن ہوں۔یہ بوتل جو آپ کے پاس نیچے پڑی ہوئی ہے۔"
" چلو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم جادوئی چراغ کے جن نہیں ہو،بوتل کے جن ہو،جن تو ہو ناں۔اگر جن ہو تو مجھے اپنی پیٹھ پر سوار کرکے اس شہر کی سیر کروا دو۔ بڑا مزہ آئے گا، جب لوگ مجھے تمہاری پیٹھ پر سوار،ہوا میں اڑتا دیکھیں گے۔
" مجھے معاف کیجئے میرے آقا! میں آپ کی خواہش پوری نہیں کر سکوں گا۔"
" تم تو عجیب جن ہو کہ مجھ جیسے ایک چھوٹے سے لڑکے کو اپنی پیٹھ پر سوار کرکے اڑنے سے انکار کر رہے ہو۔ایک الہٰ دین کا جن تھا جو شہزادی کے پورے محل کو ایک ہاتھ میں اٹھا کر اڑتا رہا۔"
میرے ننھے منے آقا! آپ بھول رہے ہو یہ الہٰ دین کا زمانہ نہیں ہے۔الہٰ دین کے زمانہ میں نہ ریڈار تھا،نہ اینٹی کرافٹ گن،نہ جیٹ طیارے تھے۔اس لیے الہٰ دین کے جادوئی چراغ کا جن بغداد کی فضاؤں میں اڑتا پھرتا۔اسے نیچے والے لوگ بس حیرت سے تکتے رہتے تھے۔اب یہ سب کچھ ممکن نہیں۔کیوں اپنے آپ کو اور مجھے مروانا چاہتے ہو؟
پپو میاں سوچ میں پڑ گئے کہ یہ جن کیسی باتیں کر رہا ہے،پھر جن سے بولے اے بوتل والے جن تمہیں یہ باتیں کیسے معلوم ہوئیں؟
کون سی باتیں؟
"یہی ریڈار،اینٹی کرافٹ گن اور جیٹ طیاروں کی۔"
"اپنے تجربے سے۔قصہ اب سے کچھ پہلے کا ہے۔" جس طرح سمندری لہروں نے میری بوتل تمہارے قدموں میں لاکر ڈال دی تھی،اسی طرح سمندری پانی نے ایک بار کسی اور ساحل پر مجھے پھینک دیا تھا۔وہاں بھی تمہاری طرح ایک لڑکے نے بوتل کا منہ کھول کر مجھے آزاد کرا دیا تھا اور تمہاری طرح ضد کرنے لگا تھا کہ مجھے اپنی پیٹھ پر سوار کرکے شہر کی سیر کروا دو۔میں نے اسے اپنی پیٹھ پر سوار کیا اور شہر کی فضاؤں میں اڑنے لگا۔مگر خدا کی پناہ! دیکھتے ہی دیکھتے طوفان کھڑا ہوگیا۔شہر کے ریڈار نے فوراً خبر کردی کہ کوئی شئے شہر کی فضاؤں میں اڑ رہی ہے۔نتیجے میں مجھ پر فائر کیے جانے لگے،پھر جیٹ طیاروں نے اوپر آکر مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔نیچے سے برابر فائرنگ کی جارہی تھی۔ میں نے بڑی مشکلوں سے ایک طیارے کے اوپر چڑھ کر اپنی اور اپنے ننھے آقا کی جان بچائی۔
نیچے سے برابر اعلان ہورہی تھا کہ تم کون ہو؟کس سیارے کی مخلوق ہو۔یا جو کوئی بھی ہو،اپنے آپ کو ہمارے قبضے میں دے دو۔جس جہاز پر میں سوار تھا، نیچے اترا تو دھواں بن کر میں نے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور اپنے ننھے آقا کو لے کر ساحل سمندر پہنچا دیا اور اس سے کہا مجھے بوتل میں بند کرکے فوراً سمندر میں پھینک دو۔
جن کی زبانی یہ واقعہ سن کر پپو میاں بولے:" اوہ ہاں! تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔"یہاں بھی ایسا خطرہ ہو سکتاہے،خیر جانے دو، فضائی سیر کے پروگرام کو چھوڑو۔چلو ایسا کرو کہ چپکے سے یہاں کے کسی باربی کیو سے گرما گرم کباب اور پراٹھا اٹھا لے آؤ، دونوں مل کر کھائیں گے۔تم تو اس بوتل میں بند جانے کب سے بھوکے پیاسے ہونگے۔
میرے آقا! آپ مجھے چوری کرنے کو کہہ رہے ہیں۔یہ تو میں ہرگز نہیں کروں گا۔یہ تو قانونی اور اخلاقی طور پر بہت بڑا جرم ہے۔گناہ بھی ہے۔ میں نے ایک بار چوری کی تھی، جس کے جرم میں مجھے بوتل میں بند کرکے سمندر میں پھینک دیا گیا تھا، جس کے بعد میں نے قسم اٹھائی تھی کہ پھر کبھی چوری نہیں کروں گا۔
یہ کہتے ہوئے جن نے اپنی لنگوٹ سے کوئی چیز نکالی اور پپو میاں کو دے دی۔یہ لو، تم اس سے کباب پراٹھا خرید کر کھا لو۔یہ اشرفی ہے،پرانے زمانے کا سکہ۔
پپو میاں نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اس پر ٹیڑھی لکیروں سے کچھ لکھا ہوا بھی تھا۔انہوں نے جن کو اشرفی لوٹاتے ہوئے کہا:" اپنا یہ سکہ اپنے پاس ہی رکھو۔یہاں تو لوہے کا سکہ یا کاغذ کا نوٹ چلتا ہے۔" یہاں کوئی دوکاندار اسے لے کر سودا نہیں دے گا۔پھر ذرا چپ رہ کر اداس لہجے میں بولے؛
میں تو دراصل تمہاری کارکردگی آزمانا چاہتا تھا۔ تاکہ تمہارے ذریعے سے میں بھی الہٰ دین کی طرح بڑا آدمی بن جاؤں۔
میرے بھولے بھالے آقا! اب کسی آدمی کو بڑا بننے کے لیے کسی جن،بھوت یا جادوئی چراغ کی ضرورت نہیں۔ آج کا انسان جن بھوتوں اور جادوئی طاقتوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔فضاؤں میں اڑتا پھرتا ہے،سمندر کی تہے میں سفر کرتا ہے۔سیکڑوں ہزاروں میل دور کے لوگوں سے نہ صرف باتیں کرتا ہے، بلکہ انہیں دیکھتا بھی ہے۔جیسے آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کررہا ہو۔چاند ستاروں کے راز بھی اب اس سے چھپے ہوئے نہیں رہے۔میرے آقا!دوسروں کا سہارا لینے والا کبھی بڑا آدمی نہیں بن سکتا۔
ہاں تم ٹھیک کر رہے ہو،الہٰ دین کے چراغ پر جب جادوگر نے دھوکے سے قبضہ کرلیا تو الہٰ دین کی ساری شان و شوکت، سارا بڑا پن ختم ہوگیا۔
تم اگر بڑا آدمی بننا چاہتے ہو میرے معصوم آقا! تو اپنی کوششوں سے،اپنی تدبیر اور حکمت سے بڑا آدمی بنو۔
تو چلو، یہ کوشش، یہ تدبیر، یہ حکمت عملی کیا ہونی چاہئیے تم ہی بتا دو؟
پڑھو لکھو خوب محنت سے جی لگا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سوچ کر کہ یہ علم ہی تمہیں بڑا آدمی بنائے گا۔آج اگر انسان جن،بھوتوں اور پریوں سے زیادہ طاقتور ہے، پوری دنیا پر راج کررہا ہے،تو علم و دانش کی وجہ ہی سے۔یہ ایسی طاقت ہے جسے کوئی جادوگر چھین نہیں سکتا۔کسی بڑے کو چھوٹا نہیں بنا سکتا۔
ٹھیک ہے،پپو میاں نے فیصلہ کن انداز میں کہا:" بڑا آدمی بننے کے لیے میں تمہارے مشورے پر ضرور عمل کروں گا۔"
"شاباش! بہت خوب بوتل کے جن نے خوش ہو کر کہا:" اب میرا آخری مشورہ یہ ہے کہ میں دھواں بن کر بوتل میں جارہا ہوں،آپ نے اچھی طرح اس کا منہ بند کرنا ہے اور اس بوتل کو سمندر میں پھینک دینا ہے میری تھوڑی قید باقی ہے۔
اور اس کے ساتھ ہی جن دیکھتے ہی دیکھتے دھویں کی صورت میں بوتل میں سما گیا۔
پپو میاں نے خوب اچھی طرح کارک سے اس کا منہ بند کیا اور کسی فاسٹ باؤلر کی طرح دور سے دوڑتے ہوئے پانی تک گئے اور بوتل کو بہت فاصلے پر لہروں کے سپر کر دیا۔

No comments: