Fazlu Laker Haara & Teen Boney-Moral Story for Kids
فضلو لکڑ ہار اور تین بونے
![]() |
| Fazlu Laker Haara & Teen Boney-Moral Story for Kids |
ندی کے قریب جنگل میں ایک لکڑ ہارا اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر کے ٹھیکیدار کو فرخت کرتا،مگر شہر کے لوگ اور ٹھیکیدار اس کو بہت کم معاوضہ دیتے۔لکڑ ہارا اپنی بیوی بچوّں کی وجہ سے سب کچھ برداشت کرتا اور شکر ادا کرتا کہ اتنا ہی بہت ہے اور اور سوچتا کہ زیادہ معاوضے کی بات کی تو شاید مجھے کم معاوضہ بھی نہ ملے تو میں کیا کروں گا۔
اسی طرح دن گزر رہے تھے، لکڑ ہارا بہت محنت سے کام کرتا۔ اس کے بچے بڑے ہو رہے تھے اور جنگل میں درخت کم ہوتے جا رہے تھے۔اس کا گھر بھی چھوٹا پڑنے لگا تھا۔آس پاس کے لوگ بھی شہر جانے کی تیاری کرنے لگے،درخت اور جنگل کی افزائش اور حفاظت کا ذمہ حکومت نے اپنے ہاتھ میں سختی سے لے لیا تھا۔اس سے لکڑ ہاروں کی رہی سہی آمدنی بھی ختم ہو گئی۔گھر میں بچے بھوک سے بے حال ہو رہے تھے۔ بیوی کے کہنے پر وہ ایک بار پھر گھر سے نکلا۔ آس پاس کے لوگ جانے کی تیاری کر رہے تھے۔اپنے پڑوسی کو بھی سامان لادتے دیکھ کر لکڑ ہارا اس کے پاس گیا۔
"کیا بات ہے کریم بھائی! تم بھی جارہے ہو؟" فضلو لکڑ ہارے نے پوچھا۔
"ہاں فضلو! میری مانو تو تم بھی چلو۔یہاں سے کچھ دور ایک گاؤں میں جوتے بنوانے کے لیے شہر سے ٹھیکیدار آیا ہے،سب وہیں جا رہے ہیں". کریم بھائی سامان لادتے ہوئےبولے۔اپنا جدی پشتی کام چھوڑ کر جوتے بنانے کا کام کرنا فضلو کو کچھ عجیب سا لگا، "نہیں کریم بھائی! میں لکڑی کا ہی کام کروں گا۔"فضلو بولا۔
"ٹھیک ہے،مگر اب تم شہر کے ٹھیکیداروں سے زیادہ معاوضہ وصول کرنا،کیونکہ اب لکڑیاں مشکل سے ملیں گی اور زیادہ معاوضہ تمہارا حق ہے۔" کریم بھائی چلے گئے،مگران کی باتیں فضلو کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔اس نے سوچا آج ندی پار کے درختوں کو کاٹ کر لکڑ لاتا ہوں۔
"چلو فضلو!آج ندی پار کر ہی لیتے ہیں۔" اس نے خود سے کہا۔
اور تھکے تھکے قدموں سے ندی کی طرف چل پڑا،مگر وہاں درخت نہ ہونے کے برابر تھے۔کچھ لکڑیاں جمع کر کے گاڑی پر لاد ہی رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ تین بونے ندی میں ڈوب ہوئے مدد کے لیے چیخ رہے ہیں۔
"بچاؤ بچاؤ کوئی ہے جو ہماری مدد کرے۔" سب سے موٹا بونا پانی میں ہاتھ پاؤں ہلاتے ہوئے چلایا:" جو ہماری مدد کرے گا،ہم اسے انعام دیں گے۔"
فضلو نے تینوں کو پانی سے باہر نکالا اور پوچھا:" کیا دینا چاہتے ہو؟"
" آج رات جب ستارے چمکنے لگیں گے تو تم اسی جگہ آ جانا۔اس جگہ تم کو تین صندوق ملیں گے، مگر تم صرف ایک ہی صندوق اٹھا کر گھر لے جانا۔دیکھو لالچ مت کرنا،کیونکہ لالچ بُری عادت ہے۔جس صندوق پر تم ہاتھ رکھو گے وہ تمہارا ہوگا اور اس میں تمہاری ضرورت کی ساری چیزیں ہوں گی۔دوسرے دو صندوق ہمارے ایک اور محسن کے لیے ہیں۔" بوڑھے بونے نے فضلو لکڑ ہارے کو سمجھایا۔
"ٹھیک ہے۔" فضلو لکڑ ہارے کو ان کی باتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے لکڑیاں اور کلہاڑی اٹھائی اور گھر آکر بیوی کو ساری باتیں بتائیں۔ بیوی بھی حیران تھی۔
اس نے کہا:" تم رات کو ضرور اس جگہ جانا اور اپنے حصے کا صندوق لے آنا۔"
"ارے ہاں میں اپنے حصے کا ہی صندوق اٹھاؤں گا۔" فضلو لکڑ ہارا اپنی پگڑی اتارتے ہوئے بولا۔
بچوں کے سو جانے کے بعد فضلو بونے کی بتائی ہوئی جگہ پر گیا۔واقعی وہاں تین صندوق تھے۔ستارے چمک رہے تھے۔رات آدھی ہو چکی تھی۔ فضلو لکڑ ہارا سوچ رہا تھا کہ شاید تینوں بونے وہاں موجود ہوں گے،مگر ایسا نہیں تھا۔بونوں کی غیر موجودگی میں اس کے دل میں لالچ پیدا ہوا:" یہاں تو بونے ہیں نہ ان کے محسن کیوں نہ میں ہی تینوں صندوق لے لوں اور ویسے بھی بونوں کو میرا گھر بھی معلوم نہیں کہ وہ میرے گھر آکر باقی صندوق مانگیں۔" وہ دل میں سوچ کر خوش ہوا۔
" نہیں فضلو یہ کسی اور کا حصہ ہے، تم صرف اپنا حصہ لے لو۔فضلو لکڑ ہارے کا ضمیر چلایا۔
" شہر کے ٹھیکیدار بھی تو میرا حصہ کم دیتے تھے تب بھی چُپ رہتا تھا۔آج میں دوسروں کے حصے کا خیال کیوں رکھوں!کبھی ایسا موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔" اس نے ضمیر کو ڈانٹ کر چُپ کرا دیا اور صندوق کی طرف بڑھا،پہلا صندوق کھول کر دیکھا تو اس میں کھانے پینے کی بے شمار چیزیں موجود تھیں،جنھیں وہ کافی عرصے تک کھا سکتے تھے۔وہ بے شمار کھانے کی چیزیں دیکھ کر ہنسنے لگا۔دوسرا صندوق کھول کر دیکھا۔اس میں بے شمار زیورات موجود تھے۔
" یہ تمہارا حق نہیں ہے۔" اس کا ضمیر چلایا۔
فضلو لکڑ ہارے نے ضمیر کی آواز پر دھیّان دیا۔"ہاں ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو۔" اس وقت مجھے ایمانداری سے کا لینا چاہیے اور صرف اپنے حصے کا صندوق لینا چاہیے۔اس وقت میرے بچے بھوکے ہیں اس لیے مجھے کھانے پینے کی چیزوں کا صندوق لے جانا چاہیے۔ فضلو لکڑ ہارے نے شیطان کو مات دے دی۔وہ کھانے کا صندوق گھر لے آیا بھوکے بچے بہت خوش ہوئے اور کھانے لگے۔
ادھر بونے فضلو لکڑ ہارے کی ایمانداری سے بہت خوش ہوئے اور باقی دو صندوق بھی فضلو لکڑ ہارے کے گھر کے باہر رکھ کر خاموشی سے چلے گئے۔
صبح لکڑ ہارا جب گھر سے نکلا تو باقی دو صندوق دیکھ کر حیرت سے چلایا:" یہ کیا یہ میرے نہیں ہیں اور نہ میں ان کو لایا ہوں۔"
وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا۔
" ہاں ہاں رات کو تم ایک ہی صندوق لائے تھے۔" اس کی بیوی بولی۔
"یہ ہم لائے ہیں، تمہاری ایمانداری کا انعام ہے۔" بوڑھا بونا بولا اور یہ ہمارے محسن کے لیے ہیں اور ہمارے محسن تم ہی ہو۔ وہ یہ کہہ کر تینوں بونے جنگل کی طرف چلے گئے۔

Nice story
ReplyDelete